Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Razia Sultana in urdu

 

رضیہ سلطانہ

رضیہ سلطانہ ، برصغیر پاک و ہند کے شمالی حصے میں دہلی سلطنت کی حکمران تھیں۔ وہ برصغیر کی پہلی خاتون مسلم حکمران ، اور دہلی کی واحد خاتون مسلم حکمران تھیں۔ التتمیش کا بڑا بیٹا قبل از وقت انتقال کر گیا تھا۔ دوسرے تمام بیٹے بیمار قابلیت کے حامل تھے ، اورالتتمیش اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے التتمیش نے اپنے بیٹے رکن الدین فیروز کو پیچھے چھوڑ کر اپنی بیٹی رضیہ کو دہلی کے تخت کے لئے نامزد کیا۔ رضیہ سلطان سال 1205 میں پیدا ہوئیں اور 1236۔1240 تک ملک پر حکمرانی کی. رضیہ کو فوجی تربیت دی گئی تھی


پانچواں سلطان رضیہ الدین (رضیہ الدین) تھی ، جس کا لقب جلالۃ الدین رضیہ سلطانہ کا تھا اور اس نے 1236 سے 1240 تک حکومت کی۔ ہندوستان میں پہلی خاتون مسلم حکمران کی حیثیت سے ، وہ ابتدا میں امرا( چالیسہ ) کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے اور انتظامی طور پر سلطنت کو اچھی طرح سے سنبھالا۔تاہم ، اس نے افریقی جمال الدین یعقوت سے وابستہ ہونا شروع کیا ، جس کی وجہ سے  چالیسہ میں نسلی عداوت پیدا کردی ، جو بنیادی طور پر وسطی ایشیائی ترک تھے اور پہلے ہی ایک خاتون بادشاہ کی حکمرانی پر ناراض تھے۔
لیکن چالیسہ (چیہلگانی یا چہلگن) التتمیش کے دور میں بہت مضبوط ہوچکے تھے اور وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ کوئی عورت ان کے اوپر حکومت کرے۔ چنانچہ ، التتمش کے انتقال کے بعد وصیت پر عمل نہیں کیا گیا اور رضیہ کے بھائی رکن الدین فیروز نے تخت پر قبضہ کر لیا اور 6 ماہ تک حکومت کی۔ لیکن رضیہ سلطانہ نے دہلی کے لوگوں کی مدد سے 1236ء میں بھائی کو شکست دے کر تخت حاصل کر لیا۔کہا جاتا ہے کہ تخت سنبھالنے کے بعد انہوں نے زنانہ لباس پہننا چھوڑدیا تھا اور مردانہ لباس زیب تن کرکے دربار اور میدان جنگ میں شرکت کرتی تھیں ۔اس نے مستند طور پر اپنے نام کے سکے جاری کیے اور خود کو 'خواتین کا ستون' اور 'وقت کی ملکہ' قرار دیا۔

رضیہ ایک عقلمند سیاست دان تھئ جب اس نے بشی غلام جمال الدین عرف یاقوت کو اصطبل کا سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا گیا تو ترکی-افغان نوبل برداشت نہیں کرسکے اور وہ بغاوت میں اٹھ کھڑے ہوئے. سلطنت کی اہم شخصیات نےبھٹنڈہ کے صوبے دار ملک التونیہ کی قیادت میں رضیہ کے خلاف بغاوت کی۔ رضیہ سلطان ان کی بغاوت کچلنے کے لیے دہلی سے فوج لے کر نکلی مگر اس کی فوج نے رضیہ کے خلاف باغیوں کا ساتھ دیا۔ رضیہ کا وفادار جرنیل امیر جمال الدین یاقوت مارا گیا رضیہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ باغیوں نے رضیہ کے بھائی معز الدین بہرام کو بادشاہ بنا ڈالا۔

تاہم التونیہ نے رضیہ کو پیشکش کی اگر وہ اس سے شادی کر لے تو وہ جان بخشی کروا سکتا ہے، رضیہ نے کچھ لمحے سوچنے کے بعد ہاں کر دی. رضیہ نے التونیہ کو اس بات پر قائل کر لیا کہ دہلی کے تخت کی اصل حقدار وہی ہیں، اس لیے ایک بھرپور حملہ کرنا چاہیے التونیہ چونکہ رضیہ کوبہت پسند کرتا تھا اس لیے مان گیا، حملے کے لیے تیاری شروع کر دی گئی، جو کافی عرصہ چلی، کھکڑوں، جاٹوں اور ارد گرد کے زمینداروں کی حمایت حاصل کی گئی، لشکر تیار کیے گئے اور پھر ایک روز حملے کے لیے روانگی ہوئی، جس کی قیادت التونیہ اور رضیہ کر رہےتھے.شدید لڑائی ہوئی لیکن رضیہ اور التونیہ کو شکست ہوئی اور فرار ہو کر واپس بٹھنڈہ جانا پڑا. ان کی افواج نے انہیں چھوڑ دیا اور دونوں کو ہندوؤں کا ایک گروہ نے پکڑ لیا اور قتل کردیا۔ بعد ازاں رضیہ کے بھائی نعش کو دہلی لے گئے اور ترکمانی دروازے کے پاس بلبل خانے میں دفن کر کے مقبرہ بنوایا جو آج بھی رجی سجی کی درگاہ کے نام سے موجود ہے۔ 


Post a Comment

0 Comments